غزل
جب اہل ہوش کہتے ہیں افسانہ آپ کا
ہنستا ہے دیکھ دیکھ کے دیوانہ آپ کا
آنکھوں میں پھر رہا ہے شب و روز کفش کن
آگے نگاہ کے ہے جلوہ خانہ آپ کا
ویران کیجئے کہ دلوں کو بسائیے
میکش تمام آپ کے مخانہ آپ کا
پیری میں گرنے دے گا نہ چھوکھٹ پہ غیر کی
پکڑے گا ہاتھ بذل کریمانہ آپ کا
مفلس غریب کو ہے یہ حیرت کہ کیا کرے
دونوں جہاں سے بڑھ کے ہے بیعانہ آپ کا
نا حق ہما ہمی کی نہ لیں شیخ و برہمن
مسجد جو آپ کی ہے تو بت خانہ آپ کا
پھرتا ہے گرد شمع کے افراط شوق سے
جو یا ہے جان بیچ کے پروانہ آپ کا
ہو حق کا غل ہے خانۂ خمار سے بلند
ہے مست ہر یگانہ و بیگانہ آپ کا
مطلب بھی ہو بس کہ ہمیں منہ لگائیے
منہ تک رہا ہے دیر سے پیمانہ آپ کا
اے شاد محو ہو گئے ارباب انجمن
دل لے گیا کلام فصیحانہ آپ کا
٭٭٭