غزل برائےبزم سخن ،شکاگو۔ردیف ' پر ،
یہ اہل شہر ہیں کب سے تلےمجھ کو ستانےپر
جسے دیکھو وہی ہے مستعد اب آزما نے پر
چلن ہے جب یہی کیا کیجیئے غصہ زمانے پر
تشفی شرپسندوں کو ہو شاید دل دکھا نے پر
رکھا ہےگردش دوراں نے کس کواک ٹھکانے پر
عبث ہےاس سے یہ شکوہ تجھےدردرپھرانےپر
کھلے ہیں پر مگراڑنے میں ہے صیاد کا کھٹکا
رہا کرتی ہیں نظریں اس کی میرے آشیانے پر
ہوئ مرضی جو خود اپنی اٹھاکر منھ چلےآئے
نہ آئے منتوں سے بھی کبھی میرے بلانے پر
یہی بہترہےان کوچھوڑ دیں خود حال پرانکے
وہ اکثر روٹھتے ہیں کچھ زیادہ ہی منانے پر
بھٹک کرراستہ پانے کا خود ہی تھامزہ اپنا
کئ رہرو بھی آمادہ تھے گو رستہ بتانے پر
رضیہ بھول کےبھی پیش رب مایوس مت ہونا
در رحمت کھلے گا ہی مسلسل کھٹکھٹانے پر
رضیہ کاظمی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸