دلوں میں وہ عزم جواں چھوڑ آئے
سلگنے کو چنگاریاں چھوڑ آئے
ترے شہرمیں اک جہاں چھوڑ آئے
نہ پوچھوکہ کیا کیا کہاں چھوڑآئے
وہ کشتی تھی بن بادباں چھوڑ آئے
ہواؤں کے رخ پر رواں چھوڑ آئے
وہ اقدارماضی کہ تھا ناز جن پر
بتاؤ کوئ ہم کہاں چھوڑ آئے
نہ آیا رسائ کا دل کو یقیں جب
ترے در پہ وہم و گماں چھوڑ آئے
جہاں بھی گئےلے کے ہمراہ شاید
وہاں اپنی محرومیاں چھوڑ آئے
گیا پیش رب جو یہ بندہ تو بولا
ملا تھا جو سب کچھ وہاں چھوڑ آئے
نہیں ان کی نظروں میں قیمت رضیّہ
وہ جن کے لئے جسم وجاں چھوڑآئے
رضیہ کاظمی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸