مکمّل غزل
نمود کیسے زمانہ اسے عطا نہ کرے
جودل پہ چوٹ توکھاۓمگرگلہ نہ کرے
خلاف شرع محبّت ہے بے وفائ بھی
کرےجو پیار مکرنا ہو پھر کیا نہ کرے
ہوا یہ کیا کہ دل ناصبور نے اس سے
یہ ٹھان لی کہ کبھی عرض مدّعانہ کرے
خطا خطاہے کہ دانستہ تو نہیں ہوتی
بشر نہیں وہ فرشتہ ہےجو خطا نہ کرے
کیا تھا اس پہ بھروسہ لٹے تو آیا ہوش
کہ اجنبی کو کسی کوئ رہنما نہ کرے
وہ جانورسےنہیں کم کسی کےاحساں کو
سمجھ کےحق جوکبھی شکریہ ادا نہ کرے
یہ ذہن گو کہ ہے جولاں گہہ خیال مگر
اگر ہے وہ کوئ فاسد یہاں بسا نہ کرے
وہ رنج و غم جو رضیّہ ملے زمانہ سے.....
پڑیں وہ جھیلنےدشمن کوبھی خدا نہ کرے
رضیہ کاظمی
نیو جرسی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸