غزل
کب سےدشمن یہ ہواچرخ نہ جانے میرے
حادثے ڈھونڈتے پھرتےہیں ٹھکانے میرے
جب بھی تعمیر کیۓمیں نےکہیں چپکےسے
آگئ برق نشیمن کو جلانے میرے
میں تو تنکے کی طرح زد میں ہواؤں کے ہوں
تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے
کب سے یوں تابع فرمان بنا رکّھا تھا
کل جو تھےآپ کےوہ اب ہیں زمانےمیں
پیار کے نام پہ یہ ہے مری رسوائ قیس
بولی لیلی' نہ پھرو بن کے د وانے میرے
اوڑھنا اور بچھونا ہے جو حیلے بازی
سچ بھی ہیں اس کی نگاہوں میں بہانےمیرے
شان وشوکت و امارت کی نہیں کچھ پروا
صرف یہ عزّت و وقعت ہیں خزانے میرے
جان دی اس پہ نہ آیا وہ عیادت کو مگر
شمع اب قبر پہ رکھتا ہےسرہانے میرے
بار احباب ہوۓ اب تو رضیّہ جی کے
مدّتوں یاد رہیں گے یہ فسانے میرے
رضیہ کاظمی
نیو جرسی، امریکہ
۱۷ جنوری ۲۰۱۴
************************