غالب کے تصوّفانہ اشعار
ہے پرےسرحد ادراک سےاپنا مسجود
کعبہ کو اہل نظر قبلہ نما دیکھتےہیں
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئ کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا
نہ تھاکچھ تو خدا تھاکچھ نہ ہوتا توخداہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزاۓ ایماں ہو گئیں
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑوبرہمن کو
کثرت آرائ وحدت ہے پرستارئ وہم
کردیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
اصل شہود وشاہد ومشہود ایک ہیں
حیراں ہوں پھرمشاہدہ ہے کس حساب میں
ہےغیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
دہرجز جلوۂ یکتائ معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
قطرہ میں دجلہ دکھائ نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت نہیں کہ دید کا احساں اٹھائیے
محرم نہیں ہے تو ہی نواہاۓ راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سےگزرنا ہے دوا ہوجانا
Razia Kazmi
******************