* گلی کے موڑ سے گزرے تو پھر اُس کا خیا *
غزل
گلی کے موڑ سے گزرے تو پھر اُس کا خیال آیا
وفا کے پھول جو بکھرے تو پھر اُس کا خیال آیا
چمن میں چار سو اُس کی ہی بس صورت نظر آئی
جو دیکھا پھول پر بھنورے تو پھر اُس کا خیال آیا
مجھے لگتا ہے موسم بھی اُسی پر جان دیتا ہے
ذرا ہم سیر کو نکلے تو پھر اُس کا خیال آیا
محبت کی یہ کشتی اور سمندر کا حسیں منظر
جو ساحل پر ذرا ٹھہرے تو پھر اُس کا خیال آیا
مرے خوابوں کی بستی میں گزر اُس کا ہی ہوتا ہے
کبھی جو ٹوٹ کر بکھرے تو پھر اُس کا خیال آیا
امیدیں ٹوٹتی ہیں جب تو دل بھی ٹوٹ جاتا ہے
جو الجھے زیست کے دھاگے تو پھر اُس کا خیال آیا
ہوائوں پر اُسی کا نام لکھ کر سوگئے رخشاں
مگر جب نیند سے جاگے تو پھر اُس کا خیال آیا
رخشاں ہاشمی
C/O. R.A.Hashmi
Dilawarpur
Munger - 811201
(Bihar)
Mob: 9546315545
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|