ہمیں تم معاف کردو
(آرمی پبلک اسکول پشاورپردہشت گردی کے حوالے سے ایک اعتراف)
بھلا یہ صبح دم سردی کے موسم میں
تم اپنے ناتواں کاندھوں پہ یہ بستے اٹھائے
غالباـ اسکول جاتے ہو
جہاں سے علم کی قندیل لے کر
ساری دنیا کو منور تم نے کرنا ہے
تمہاری ماں نے تم کو منہ اندھیرے اس لئے تیار کرکے
باپ کی پھر انگلیاں تم کو تھما کر
کیا کسی مقتل میں بھیجا تھا
جہاں آئے تھے انسانی شکل میں بھیڑئے
جو خون کے پیاسے منظم جانور تھے
جن کی بندوقوں نے
پھولوں جیسے بچوں پر چلائی گولیاں
پھر وحشیوں نے رقص کرکے جشن اپنی کامیابی کا منایا تھا
اور ہم بے بس ان ہی معصوم لاشوں زخمیوں پر بین کرتے
ان کے اعضا،ان کے بستے
ان کی سب معصوم یادوں کو سمیٹے
خود یوں ہی پل پل بکھرتے،سوچتے ہیں
کیا کوئی انسان ایسا کر بھی سکتا ہے
اور اپنے ظلم کا اعلان اور اقرار کرتا ہے
کسی تاریخ میں کیا ظلم کی یہ داستاں بھی ہے
ہم ان بچوں کے
ان کے بھائی بہنوںباپ ماں کے سامنے
سر کو جھکائے
اپنی معذوری پہ شرمندہ بہت ہیں
ہمیں تم معاف کردو
٭