محترمہ) ثروت ظفر)
سوال کرتے ہیں چہرے تمہاری ماؤں کے
کہاں گئے جو محافظ تھے ان رداؤں کے؟
میں اب کے سال بڑی آفتوں کی زد پر ہوں
حصار ٹوٹ رہے ہیں مری دعاؤں کے
وہ جاتے جاتے بھی رستہ ہمیں بتا کے گیا
ہیں سنگِ میل کی صورت نشان پاؤں کے
حویلیاں انہیں زنداں سے کم نہیں لگتیں
جنہیں پسند ہیں کچے مکان گاؤں کے
ہنسی لبوں پہ مگر دل میں آبلے رکھنا
یہ حوصلے ہیں فقط درد آشناؤں کے
کبھی دعا تو کبھی آس ٹوٹ جاتی ہے
ہیں میرے ساتھ بہت سلسلے بلاؤں کے
وہ چل پڑا ہے مگر راستے میں ثروتؔ
پیام آنے لگے ہیں مجھے ہواؤں کے
٭٭٭