غزل
میری سب مشکلوں سے ڈرتی ہے
ماں مجھے کتنا پیار کرتی ہے
میں مکمّل ہوں آئینہ اس کا
وہ مجھے دیکھ کے سنورتی ہے
میری بانہوں میں سمٹ جاتی ہے
زندگی کس طرح بکھرتی ہے
اس کے وعدے بھی عجب ہوتے ہیں
خود ہی کرتی ہے خود مکرتی ہے
زندگی کیسے ڈوب جاتی ہے
لاش پانی پہ بھی ابھرتی ہے
اس کے جانے کی کیا ادائیں ہیں
دو قدم چل کے پھر ٹھہرتی ہے
میرے دل میں وہ ایسے اتری ہے
جس طرح سیڑھیاں اترتی ہے
نور کیا غور کیا ہے اس پہ
زندگی روز جیتی مرتی ہے
Noor Ain Sahir
***********************