ناصر کاظمی
-------------
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں ، تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہل_دنیا نے
بقدر_تشنہ لبی، پرسش_وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گیۓ تیری نظر کے پیمانے
خیال آ گیا مایوس رہگزاروں کا
پلٹ کے آ گیۓ منزل سے تیرے دیوانے
کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
-------------------------