* خواب بچپن میں لے گیا مجھ کو *
خواب بچپن میں لے گیا مجھ کو
ایک بوڑھا وہاں ملا مجھ کو
دیکھ آیا ہوں آئنے سارے
کوئی چہرہ بھی اب دکھا مجھ کو
کیوں گرایا تھا آسمانوں سے
آ نشیبوں سے اب اٹھا مجھ کو
اے پرندے! بڑا تجسس ہے
ساتھ اپنے کبھی اڑا مجھ کو
پرزے پرزے تو کر دیئے میرے
مثل تصویر، اب جلا مجھ کو
اس نے خوشبو بنا کے چھوڑ دیا
اب اڑاتی پھرے ہوا مجھ کو
دیکھ مجھ میں شرار کتنے ہیں
پانیوں میں کبھی ملا مجھ کو
آپ ہی اپنا ہو گیا دشمن
راس آیا نہ ارتقا مجھ کو
مجھ میں زندہ ہزار روحیں تھیں
کھا گیا جسم کا خلا مجھ کو
سارے اسباق کر لیے ازبر
ابجد عشق بھی پڑھا مجھ کو
جسم کی اوٹ سے نکلتے ہی
اک ہیولے نے آ لیا مجھ کو
راز ڈوبے ہوئے جزیروں کے
اے سمندر! کبھی بتا مجھ کو
بھول جاتا ہوں غم جہانوں کے
کوئی دیتا ہے جب دعا مجھ کو
دھوپ شدت کی تھی جہاں ناصر
سایہ اپنا وہاں ملا مجھ کو
*******************
|