* چوٹ جو دل پر لگی وہ سہہ گئے *
چوٹ جو دل پر لگی وہ سہہ گئے
بے زباں ہوکر ہم آخر رہ گئے
یوں گھٹا برسی تمہارے پیار کی
پیار کے سیلاب میں ہم بہہ گئے
زیست کی پگڈنڈیوں پر صبح و شام
ہم خوشی کی راہ تکتے رہ گئے
پھیر لی اُس نے نظر تو کیا ہوا
چند قطرے آنسوئوں کے بہہ گئے
جن پتنگوں میں تڑپ تھی وصل کی
شمع کی لَو میں وہ جل کر رہ گئے
ہم تو بس اُس غیرتِ ناہید کا
ہر ستم ہنس ہنس کے دل پہ سہہ گئے
اُن کو اے مشتاقؔ ہم جو کہہ نہ پائے
وہ کنائے کی زباں میں کہہ گئے
************** |