* تو اگر بے وفا نہیں ہوتا *
تو اگر بے وفا نہیں ہوتا
میرے قبضے میں کیا نہیں ہوتا
میں نے دیکھا تری جدائی میں
درد دل سے جدا نہیں ہوتا
یاد تیری اگر نہیں آتی
زخم دل کا ہرا نہیں ہوتا
تم جو نامہرباں نہیں ہوتے
غم سے میں آشنا نہیں ہوتا
سر جھکائیں ہم اُس کے آگے کیوں
آدمی تو خدا نہیں ہوتا
خالقِ کائنات کے آگے
کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا
اُن کے وعدے پہ جی رہا ہوں میں
جن کا وعدہ وفا نہیں ہوتا
سب کا گھر نور سے ہوا روشن
صرف مشتاقؔ کا نہیں ہوتا
***************** |