* ہمیشہ خون کے چھینٹے پڑے مفلس کے دا *
ہمیشہ خون کے چھینٹے پڑے مفلس کے داماں پر
سدا ظلم و ستم ڈھائے گئے کمزور انساں پر
امیری فرشِ گل پر رات بھر بے چین رہتی ہے
غریبی چین سے سوجاتی ہے خاکِ بیاباں پر
یہ اک سچ ہے یقیں آئے نہ آئے اِس زمانے کو
ہے میرے خون کی سرخی رُخِ گلہائے خنداں پر
کرن پھوٹی ، پرندے چہچہائے ، زندگی جاگی
مگر سوئے رہے تم سبزۂ صحنِ گلستاں پر
کوئی مظلوم کیوں پھیلائے دامن سامنے اِن کے
یہ ظالم جب ترس کھاتے نہیں مظلوم انساں پر
اُسے معلوم کیا جیتے ہیں کیسے لوگ دنیا میں
ہنسا کرتا ہے جو پروردۂ آغوشِ طوفاں پر
جلادے پھر نہ اے مشتاقؔ میرا آشیاں بجلی
بڑی ظالم ہے رہ رہ کر چمکتی ہے گلستاں پر
*************** |