* جسم دھرتی کا کانپ اٹھا تھا *
جسم دھرتی کا کانپ اٹھا تھا
اِس قدر سخت وہ دھماکہ تھا
آج دیکھا شکستہ حال اُس کو
میری حالت پہ کل جو ہنستا تھا
روشنی طور پر جو چمکی تھی
اُس میں پنہاں خدا کا جلوہ تھا
پیار کے پھول کس طرح کھلتے
بیج نفرت کا تم نے بویا تھا
مجھ کو سو بار یاد آیا وہ
میں نے صرف ایک بار دیکھا تھا
اُس نے قاتل سے دوستی کرلی
جو مری قوم کا مسیحا تھا
کھوگیا جانے وہ کہاں مشتاقؔ
جو مرا مرکزِ تمنا تھا
*************** |