* وہیں ہر طرف خوں کے چھینٹے پڑے ہیں *
وہیں ہر طرف خوں کے چھینٹے پڑے ہیں
جہاں امن کے گیت گائے گئے ہیں
جلاتے ہیں چن چن کے وہ گھر ہمارا
ہمارے ہی سینے پہ خنجر چلے ہیں
کوئی زندہ رہنے کی تدبیر سوچو
کہ مرنے کے تو سیکڑوں راستے ہیں
ہمیشہ وہ دنیا میں زندہ رہیں گے
جو ہنس ہنس کے لوگوں کے غم بانٹتے ہیں
جہاں کوئی غم کا شرارہ نہیں تھا
سنا ہے کہ لاکھوں وہاں جل مرے ہیں
زمانے کے ہاتھوں پریشاں ہو تم بھی
حصارِ شبِ غم میں ہم بھی گھرے ہیں
بزرگوں سے جو بات تم نے سنی ہے
وہی بات مشتاقؔ بھی کہہ رہے ہیں
************** |