* جو تیرے ساتھ تعلق کا سلسلہ ٹوٹا *
جو تیرے ساتھ تعلق کا سلسلہ ٹوٹا
پہاڑ غم کا مرے سر پہ جیسے آ ٹوٹا
دلوں کے بیچ بڑھی ایسی نفرتوں کی خلیج
کہ دل سے دل کا جو قائم تھا رابطہ ٹوٹا
ہزاروں مشکلیں آئیں وفا کی راہوں میں
مگر کبھی نہ مرے دل کا حوصلہ ٹوٹا
کسی کی زلفِ پریشاں سے تیرگی پھیلی
کسی کی جنبشِ ابرو سے آئینہ ٹوٹا
ملے جو موقع کبھی تو یہ بیٹھ کر سوچیں
ذرا سی بات پہ کیوں رشتۂ وفا ٹوٹا
تری خدائی میں وہ سانس لے رہا ہے مگر
کبھی غرور نہ اُس بُت کا اے خدا ٹوٹا
دکھائی دیتا ہے رُخ اُن کا سارے ٹکڑوں میں
دلِ حزیں کا مرے جب سے آئینہ ٹوٹا
بڑا عجیب ہے خوابوں کا یہ محل مشتاقؔ
سدا بنایا گیا اور یہ سدا ٹوٹا
****************** |