* دولت کے لئے سرو و سمن بیچ رہا ہے *
دولت کے لئے سرو و سمن بیچ رہا ہے
وہ کون ہے جو حسنِ چمن بیچ رہا ہے
ہوتی نہیں اب فن کی پذیرائی جہاں میں
مجبور ہے فنکار جو فن بیچ رہا ہے
کرتا تھا سدا گنگا و جمنا کی جو پوجا
وہ آبروئے گنگ و جمن بیچ رہا ہے
بچوں کے لئے چاہئے دو وقت کی روٹی
وہ دھوپ میں جل جل کے تھکن بیچ رہا ہے
جینے نہیں دے گا اُسے عزت سے زمانہ
مجبور ہے وہ اپنا بدن بیچ رہا ہے
اخلاق کی تعلیم جو دیتا تھا وہی آج
تہذیب و تمدن کا کفن بیچ رہا ہے
وعدوں کا وہ انبار لئے آیا ہے اب کے
پھر وعدہ نیا وعدہ شکن بیچ رہا ہے
مشتاقؔ جسے فخرِ وطن کہتے تھے سب لوگ
وہ عزت و ناموسِ وطن بیچ رہا ہے
************* |