بڑے غرور سے جو سر اُٹھائے پھرتا ہے
بلا کا بوجھ بدن پر اُٹھائے پھرتا ہے
وہ جس کے دیدہ و دل روشنی کے مُنکر ہیں
وہ مہر و ماہِ منوّر اُٹھائے پھرتا ہے
ہجومِ تشنہ لباں مشتعل نہ ہو جائے
کہ شیخ شیشہ و ساغر اُٹھائے پھرتا ہے
مِلا رہا ہے جو اک ہاتھ گرم جوشی سے
وہ ایک ہاتھ میں خنجر اُٹھائے پھرتا ہے
نہ کوئی قیس گلی میں ، نہ بام پر لیلیٰ
ہجوم کس لیے پتھر اُٹھائے پھرتا ہے
نہ جانے کس کا مقدر ہو زخمِ دل عاجزؔ
کہ سرخ پھول ستم گر اُٹھائے پھرتا ہے
=============