زیبِ ُگلو وہ زلفِ گرہ گیر اب بھی ہے
وحشی اسیرِ حلقۂ زنجیر اب بھی ہے
کب کا اُجڑ چکا ہے شوالہ شباب کا
لیکن وہ بُت ، کہ آنکھ میں تصویر اب بھی ہے
دل ہے کہ ٹوٹتا ہی چلا جائے ہے مگر
امکاں میں ایک صورتِ تعمیر اب بھی ہے
آمادۂ سوال نہیں غیرتِ جنوں
ورنہ دُعا کے حرف میں تاثیر اب بھی ہے
دشتِ وفا میں آج بھی سر ہیں سجود میں
دستِ جفا میں قبضۂ شمشیر اب بھی ہے
رکھی ہوئی ہے درد کی دولت سنبھال کر
ورثے میں جو ملی تھی وہ جاگیر اب بھی ہے
=============