* تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مَے جس قدر ملے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
تم کو کبھی ہم دکھائیں گے مجنوں کیا کیا
فرصت کشا کش غم پنہاں سے گر ملے
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
اے ساکنانِ کوچۂ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے
|