* سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوں گئیں
یاد تھیں، ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں
تھیں بنات النّعش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو اُن کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں
سب رقیبوں سے ہے نا خوش پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہ کنعاں ہو گئیں
جو ئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
ان پر ی زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے اگر حوریں یہی واں ہو گئیں
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں گے
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھُل گیا
بلبلیں سن کرمرے نالے غزل خواں ہو گئیں
میں گیا بھی واں تو اُن کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں
جانفزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں
ہم موحّد ہیں، ہمارا کیش ہے، ترکِ رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
یونہی گر روتا رہا غالبؔ تو اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
|