* پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا
زندگی یوں بھی گذر ہی جاتی
کیوں ترا راہِ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
گھر ترا خُلد میں گر یاد آیا
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا
کوئی ویرانی سے ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
|