اس طرح سے آتے جاتے رات دن
فتنے پر فتنے جگاتے رات دن
اُف، تماشائے قدِ بالا نہ پوچھ
حشر کا منظر دکھاتے رات دن
کیا چھپاتے ہم بھی شوقِ دید کو
جب وہ خود جلوے لٹاتے رات دن
اپنے حصے میں یہ آیا مشغلہ
اشک کے گوہر لٹاتے رات دن
ایک لمحے کی خوشی کے واسطے
مدتوں ہم دکھ اٹھاتے رات دن
بھیج دی ہے بادلوں کو بھی خبر
گھر ہیں مٹی کا بناتے رات دن
خوشترؔ ہے محرومیوں میں بھی سرور
زندگی سے یوں نبھاتے رات دن
********************