غزل
ڈاکٹر منصور خوشتر
تمہاری بزم کا بھی حال کچھ اچھا نہیں ہے
قرار اب بے قراروں کو یہاں ملتا نہیں ہے
یہاں تو بھائی کی جاں کا ہے دشمن بھائی خود ہی
بسائی تھی جو آدم نے یہ وہ دنیا نہیں ہے
نئی تہذیب ہی نے کی ہے’نیور وسرجری‘ جو
ہمارا خود ،ہمارا چہرہ اب لگتا نہیں ہے
براوقت اور کیا ہو گا ہماری بے حسی کا
بجھانے پر بدی کا شعلہ اب بجھتا نہیں ہے
سٹر ک پر چلنے والے کو نہیں اتنی سی مہلت
تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رکتا نہیں ہے
مسیحا جس سے ہو مجبور بھی چارہ گری پر
کچھ ایسا دل میں اپنے درد اب اٹھتا نہیں ہے
سکھائیں کس طرح آنکھوں کو اپنی رونا خوشترؔ
کہ دریا تو رواں ہو جاتا ہے ،چڑھتا نہیں ہے
**************************