* جو ابھی خوابیدہ ہے وہ ساز ہوں *
غزل
جو ابھی خوابیدہ ہے وہ ساز ہوں
آنے والے کل کی میں آواز ہوں
کر رہا ہے وقت میری پرورش
عہد ِ نو کا نقطہء آغاز ہوں
انفس و آ فاق ہیں جس کی صفات
اْس نفس کا میں بھی اک اعجاز ہوں
جس کی مشتِ خاک ہےلولاک سب
میں بھی اْس کی صورت ِ پرواز ہوں
جو ازل سے تا ابد ہے موجزن
اْس حسیں کا میں بھی اک انداز ہوں
کے اشرف
|