نعت رسول سلم
اقبال عظیم
صد شکر اتنا ظرف میری چشم تر میں ہے
دیکھے بغیر سارا مدینہ نظر میں ہے
پہلا سفر مدینے کا میں کیسے بھول جاؤں
سارا وجود میرا ابھی تک سفر میں ہے
یاد_دیار_ پاک ہے اب جزو_ زندگی
ہر منظر_ جمیل ابھی تک نظر میں ہے
رہبر کا بار_ دوش نہ احسان_ ہم سفر
کچھ ایسا اہتمام وہاں کے سفر میں ہے
کرتا ہے آفتاب بھی جھک کر اسے سلام
وہ حسن_با وقار وہاں کی سحر میں ہے
ہر ذرّہ راہ_ طیبہ کا ہے روشنی بدوش
اور خضر کا خلوص بھی گرد_ سفر میں ہے
اقبال کا وسیلۂ بخشش ہے بس وہی
اس کی بیاض_ نعت جو رخت_ سفر میں ہے
مرسلہ --سعود صدیقی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸