غزل
افتخار راغب
بات کہنی تھی ایک بر موقع
وقت نے کب دیا مگر موقع
تم بہت سوچنے کے عادی ہو
تم گنواتے رہو گے ہر موقع
دل کی ایک ایک بات رکھ دوں گا
مل گیا اب مجھے اگر موقع
جانے کب ہاتھ سے نکل جائے
زندگی کا یہ مختصر موقع
موسمِ ہجر میں برسنے کو
کم نہیں تم کو چشمِ تر موقع
تم نے تاخیر کر دی آنے میں
اب کہاں میرے چارہ گر موقع
لگ رہا ہے کہ مل نہ پائے گا
تم سے ملنے کا عمر بھر موقع
روز فتنہ کوئی اُٹھانے کا
ڈھونڈ لیتے ہیں فتنہ گر موقع
++++++++++++++++++++