غزل
ہمارا حال بھی یارو ذرا سنورنے دو
غبار راہ سمجھ کر نہ یوں بکھرنے دو
قدم قدم پہ ضرورت ہماری بھی ہوگی
ہمارے ساتھ چلو یوں نہ تم بچھڑنے دو
بسے ہوئے ہم لوگ کیوں کھٹکتے ہیں
ضروری کیا ہے کہ ہم کو یونہی اُجڑنے دو
یقین جانو کہ دل کو سنبھال رکھیں گے
نظر کی راہ سے دل میں ہمیں اُترنے دو
کہاں جگہ ہے نئے زخم کیا لگاؤگے
پرانے زخموں کو یارو ذرا سا بھرنے دو
تمہاری غیرت ملّی کوہو گیا ہے کیا؟
میانمار کے لوگوں کو یوں ہی مرنے دو؟
عظیمؔ سارا زمانہ ہے اپنے لوگوں کا
ہمیں بھی ان کی طرح جان سے گزرنے دو
************************