غزل
جانے کیوں ہم بند گلی میں پڑے ہوئے ہیں
زندہ ہیں یا خاک میں ہم بھی گڑے ہوئے ہیں
اس میں کیا کچھ اپنی خطا کا حصہ ہے؟
لاوارث کی صورت جو ہم پڑے ہوئے ہیں
ہم بھی اپنی ہٹ پر قائم ہیں اب تک
اب تک اپنی بات پہ وہ بھی اڑے ہوئے ہیں
آکر ان سے مل تو لیجے آپ، جناب
لوگ بہت ہی دیر سے در پر کھڑے ہوئے ہیں
کس کس سے امید حمایت کرتے ہیں
جانے کن کن لوگوں سے ہم لڑے ہوئے ہیں
بچوں جیسی باتیں اب تک کرتے ہیں
کہنے کو تو عمر میں ہم بھی بڑے ہوئے ہیں
ویرانے، گلشن سے عظیمؔ اب اچھے ہیں
باغ کے جتنے پھل ہیں سارے سڑے ہوئے ہیں
***********************