حسن آتش چاپدانوی ،کلکتہ
دو کام ہم جہاں میں ترے نام کر گئے
تھی زندگی جئے جوقضا آئی مرگئے
الزام بادِ تند پہ ناحق ہے دوستوں
ہم زرد ہو رہے تھے ہوا میں بکھر گئے
صد حیف، بے ثباتیءِ رودادِ اشک دیکھ
دو پل نہ رک سکے سرِ مژگاں ، اتر گئے
مشہور ہو گئے وہ جہاں میں وفا پرست
الزامِ بے وفائی سبھی میرے سر گئے
بخیہ گری کے واسطے آئے تھے چارہ گر
کر کے سَوا کچھ اور ہی زخمِ جگر گئے
راس آگئی ہے ایسی ہوا دشت کی حسنؔ
تا زندگی نہ لوٹ کے پھر اپنے گھر گئے
--