رباعیات
گل بخشالوی
صحرا کی کھڑی دھوپ میں سائے ہم ہیں
دھرتی پہ دمکتے ہوئے تارے ہم ہیں
مزدور ہیں پیتے ہیں پسینہ اپنا
جگنو شبِ تاریک میں ہوتے ہم ہیں
............
جیتے ہیں بڑی شان سے مستانے ہیں
ملت کیلئے جان کے نذرانے ہیں
جلتے ہیں جو ملت کے دیئے پر اکثر
ہم عشقِ محمد کے وہ پروانے ہیں
............
حالات کے دکھ درد کو سہنا ہو گا
کردار میں افلاک سا رہنا ہوگا
مقتل میں بھی سر اپنا نہ جھکنے پائے
حق جو ہے سردار ہی کہنا ہو گا
............
کیوں ظلم کو ظالم تو ہوا دیتا ہے
تو موت کو اس طرح صدا دیتا ہے
مظلوم کو کمزور سمجھتا ہے تو
وہ آہ! سے بھی عرش ہلا دیتا ہے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸