donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Feroze Natique Khusro
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* رنگ برنگی ایک چُنریا *

فیروز ناطق خسروؔ


 رنگ برنگی ایک چُنریا 

جب سے ابا کے چہرے کو 
لقوا مار گیا تھا 
اور دادا کو دل کا دورہ
زیادہ تروہ گھر کے اندر  رہتے!
آپس ہی میں باتیں کرتے
وقت  بِتاتے!
باہر کے سب کام بڑے بھیا کی ذمہ داری
باغ بغیچے، کورٹ کچیری اور پٹواری
فصل اُگاتے ہاری!

اپنے گھر  کے مردانے کا حال برا تھا!
ہر کمرے میں کاٹھ کباڑ، مکڑی جالے
کس کو فرصت، کون اسے اب  دیکھے بھالے !
لیکن اک کمرے  کے درپر 
جب دیکھو اک قفل پڑا ہے!
 دروازہ بھی خوب بڑا ہے! 
اک دن میںنے پوچھ لیا پھر 
آخر اس کے اندر کیا ہے!
ماںہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی 
’’شس شس‘۔۔شس‘‘  !

 

ابا  نے بھی راہ دکھائی
جائو بیٹا جاکر کھیلو!
میں نے پیر پٹخ کرپوچھا
آخر کیا ہے اس کمرے کے اندر
ہیرے، موتی، چاندی، سونا
یا پھر کوئی اور کھلونا !
آخر کیا ہے اس کمرے کے اندر !

داد ا نے ہنکارا بھرکر
دھندلے ششیشوں کی عینک سے گھور کے دیکھا!
ابا نے پھر  ڈانٹ پلائی
بھیا اور باجی  نے بازو پکڑے مجھ کو میرے کمرے میں لا پٹخا!

 اک دن بھیا !
شور و غُل کی آوازوں کو ساتھ لئے 
کچھ خوفزدہ سے ، گھبرائے سے گھر میں آکر 
 اپنے کمرے میں گھس بیٹھے !
 شور و غل  کے ساتھ ہی
 ابا  کے اور دادا جی  کے ناموں کی تکرار۔۔۔ دُہائی!
 ساتھ میں فریادی کی چیخیں
جس نے وہ اک بات بتادی 
جس کو  بھیا شرم اور خوف کے مارے 
اپنے منہ سے کچھ دن اور نہ کہتے!

 

ایسا  منظر  پہلے بھی ہم دیکھ چکے تھے!
لیکن ابا اور دادا  کے غصے،
  مال و دولت کی برسات کے ہاتھوں
فریادی کی چیخیںباہر باہر دفن ہوجاتیں !
لیکن اُس دن فریادی کی چیخیں
لال حویلی کی دیواریں توڑ کے اندر تک آپہنچی تھیں!
 شور شرابا سُن کر بے زاری سے
 ابا نے دادا کو دیکھا
 بیساکھی پر بوجھ کو لادا
دادا جی دل پکڑے پکڑے
اُلٹے قدموںابا کے قدموں پر چلتے
آگ اُگلتی آنکھیںلے کر مردانے حصے میں پہنچے! 
میں بھی چھپتا چھپاتا ساتھ تھا اُن کے پیچھے پیچھے
قفل زدہ کمرے تک پہنچا
کمرہ بھی اُ س روز کھلا تھا!
(لیکن اُن کو ہوش کہاں تھا) 

 کچھ ہی دیر میں باپ اور بیٹا
(ابا اور دادا ابا)
 پتھریلے چہروںکے اوپرلطف و کرم کا خول چڑھا تھا!
ہونٹوں پر مسکان سجائے
 امن کی دیوی کا دیدا ر کراتی آنکھوں کو ہمراہ لیے!
کمرے سے نکلے!

 

میںجو کاٹھ کباڑ کے پیچھے 
چُھپ بیٹھا تھا!  
بیتابی سے خالی کمرے میں جا پہنچا 
اندرمیں نے جو کچھ دیکھا  
دیکھ کے اُس کو میری آنکھیں صدمے اور حیرت سے
اپنے حلقوں سے باہر تھیں!
فرش کے اوپر بے ڈھکنوں کے تین بڑے صندوق  رکھے تھے !
 صندوقوں پر ’’ دادا ،  ابا اور۔۔۔ بھیا ‘‘کے نام  لکھے تھے!
 پھٹی پرانی اُوڑھنیوں سے دادا  اور ابا کے
دونوں  ہی صندوق بھرے  تھے !
 بھیا کے صندوق سے اٹکی رنگ برنگی ایک چُنریا 
فرش تلے فریاد کناں تھی!
دادا  ابا  اور  ابا سے۔۔۔!
یا پھر اُس سے جو۔۔۔۔!
 اپنا ہے غیر نہیں
انصاف میںجس کے دیر نہیں ،  اندھیر نہیں!!

ہر سُو ہا ہا کار مچا تھا!
باہر  سارا گائوں جمع تھا!

 


  

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 490