شہر آتے ہی وہ بے جھجھک بک گیا
صبح کا آدمی شام تک بک گیا
کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی
آج سیتا کی خاطر جنک بک گیا
چند چاول کے دانوں نے دکھلایا رنگ
اور دھرتی کے ہاتھوں فلک بک گیا
شام کو ہی خریدا تھا خود کو مگر
پھر ضرورت پڑی صبح تک بک گیا
جس کے ہاتھوں کی مہندی خریدی گئی
اس کے اجداد کا گھر تلک بک گیا
جانے کیا شے خریدی ہے اس نے ابھی
اس کے چہرے کا آزرؔ نمک بک گیا
****************