اس کی مخالفت کا تو میدان صاف تھا
لیکن خود اس سے، اس کا بہت اختلاف تھا
الزام کیا میں دیتا وبھیشن کی ذات کو
مجھ سے ہی جب لہو کا مرے انحراف تھا
اندھا نہ تھا کوئی بھی مرے شہر میں مگر
اک بے حسی کا سب کی نظر پر غلاف تھا
یوں لمحہ لمحہ ختم ہوا جا رہا تھا وہ
جیسے کہ اس کی روح میں کوئی شگاف تھا
آزرؔ کی بت تراشی سے واقف تھے سب مگر
آزرؔ غزل تراش ہے یہ انکشاف تھا
**************