چھپا رہا تھا مری وحشتوں سے گھر مجھ کو
اڑا ہی لے گیا صحراؤں کا سفر مجھ کو
کہیں میں بھول نہ جاؤں تجھے بھی میرے خدا
خوشی کا زعم ہٹا اور اداس کر مجھ کو
کہیں وجود مٹا دے نہ آفتاب آ کر
بلا رہی ہے کوئی شبنمِ سحر مجھ کو
تو میرے سایے میں آنے کی آرزو مت کر
بنا گیا ہے کوئی آگ کا شجر مجھ کو
اسے خبر تھی کہ میں اس کو توڑ ڈالوں گا
پکارتا ہی رہا آئینہ مگر مجھ کو
مرے شعور نے مجھ کو بلا لیا واپس
لگا دیا تھا مرے دل نے داؤ پر مجھ کو
***************