وہ زندگی کی آخری تسکین لے گئی
خوش فہمیاں بھی مجھ سے مری چھین لے گئی
گزرے گی بے اصول مری زندگی تمام
اک لڑکی میرے جینے کا آئین لے گئی
حدِّ نگاہ تک ہے خلاؤں کا سلسلہ
وہ مجھ سے سارے انجم و پروین لے گئی
اب زندگی سے موت لڑے گی تمام عمر
ہونٹوں سے جان سورۂ یٰسین لے گئی
ڈھیلا ذرا ہوا تھا مرے ہاتھ سے لگام
آندھی سَمے کی عہدِ سلاطین لے گئی
اب پتھروں کے شہر میں رہنے سے فائدہ؟
آزرؔ جب اپنا فن ہی زمیں چھین لے گئی
*************