وہ دست رس سے دعاؤ ں کی،دور تھا کتنا؟
یہ مرحلہ تھا مگر صبر آزما کتنا!
مجھے پھر اس سے تعلق بحال کرنا پڑا
وہ شخص مجھ سے بچھڑ کر اداس تھا کتنا!
اس انتشار کی اک حد بھی تو معیّن ہو
مجھے اب اور بکھیرے گی یہ ہوا کتنا!
مری نگاہ اٹھی جب کسی بدن کی طرف
مرا ضمیر ہوا بے سبب خفا کتنا !
میں دور تھا تو کشش کھینچ لے گئی آزرؔ
قریب پہنچا تو منظر بدل گیا کتنا
*****************