دشمنوں میں بھی ادائے دوستانہ ڈھونڈتے ہیں
ہم سے بزدل یوں بھی جینے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں
اے زمیں تیری کشش کیوں اس قدر کم ہو گئی ہے
دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں
جو حدِ امکان سے بھی دور ہوتا جا رہا ہے
ہم وہی کھویا ہوا زرّیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
بے حسی سی ہر گھڑی کیوں ہم پہ ہو جاتی ہے طاری
ہر گھڑی کیوں وقت کا اک تازیانہ ڈھونڈتے ہیں
جب کوئی چہرہ ہمارے خواب میں آیا نہیں تھا
اپنی تنہائی کا وہ رنگیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
****************