تپتے صحرا میں سمندر نہیں آنے والا
اب یہاں کوئی پیمبر نہیں آنے والا
اپنی آنکھوں کو رکھو پشت کی جانب اپنی
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آنے والا
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
لاکھ دہرائے یہ تاریخ خود اپنے کو مگر
وہ حسیں دور پلٹ کر نہیں آنے والا
ہم تو یک طرفہ محبت کے ہیں قائل آزرؔ
چاند تو یوں بھی زمیں پر نہیں آنے والا
****************