پھر مفاہیم میں الفاظ کے وسعت آ جائے
کاش ایسا ہو کہ پھر عہدِ رسالت آ جائے
فاصلہ ساتھ نبھانے کو ہے لازم ورنہ
سورج آ جائے زمیں پر تو قیامت آ جائے
پھر نہیں خوف کوئی دونوں بڑے دیووں سے
سبز گلفاموں کو گر تھوڑی سیاست آ جائے
اتنے شل ہیں کہ نہیں اٹھتے دعاؤں کے لیے
کچھ تو یا رب مرے ہاتھوں میں حرارت آ جائے
علم کے بدلے جو کچھ سیکھ رہے ہیں بچے
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ پھر عہدِ جہالت آ جائے
***************