شرر ذخیرۂ بارود تک پہنچنے کو ہے
اب آگ خانۂ نمرود تک پہنچنے کو ہے
ہے جس پہ لکّھا ہوا لا الٰہ الا اللہ
وہ ہاتھ گردنِ مردود تک پہنچنے کو ہے
جو رِستا رہتا ہے ناسورِ جسمِ فردا سے
وہ زہر لمحۂ موجود تک پہنچنے کو ہے
جہاں سے کوئی کہیں راستہ نہیں جاتا
دل ایسی وادیِ مسدود تک پہنچنے کو ہے
گناہ لمحوں کے چہرے بتا رہے ہیں کہ اب
یہ دنیا ’’نیست سے نابود‘‘ تک پہنچنے کو ہے
اگر نہ بیچ میں حائل ہوئے مرے اعمال
تو پھر دعا مرے معبود تک پہنچنے کو ہے
***************