محبتوں کا سنہرا جمال دینا تھا
ہمارے عہد کو ماضی سا حال دینا تھا
یہ کیا کِیا کہ فقط آسماں سے پھینک دیا
ہمیں عروج کی حد تک زوال دینا تھا
تری طرح میں اکیلا تو رہ نہیں سکتا
مجھے جہاں میں کوئی ہم خیال دینا تھا
فریب دیتا رہا ہے جو لفظ صدیوں سے
اُسے لغات سے باہر نکال دینا تھا
تمام عمر انہیں خواہشوں کے ساتھ رہے
کہ جن کو وقت کے ہمراہ ٹال دینا تھا
جو ساری نیکیاں دریا میں ڈال آئے ہو
تو پھر گناہ سمندر میں ڈال دینا تھا
***************