’’خزاں محور‘‘ سے ہٹتا جا رہا ہوں
میں شاید خود سے کٹتا جا رہا ہوں
صدی بننے کی خواہش کا بُرا ہو
میں لمحوں میں سمٹتا جا رہا ہوں
سبھی وارث ہیں دعوے دار میرے
میں اب حصوں میں بٹتا جا رہا ہوں
مری توقیر بڑھتی جا رہی ہے
مگر میں ہوں کہ گھٹتا جا رہا ہوں
تعاقب میں مرے ،سورج ہے اور میں
اندھیروں سے لپٹتا جا رہا ہوں
**************