خدا کا بھی امتحان لینے کی ضد عجب تھی
بچھڑ کے اس سے دعا کے لہجے کی ضد عجب تھی
ہوائے شفقت چھُری بھی والد سے چھین لیتی
پہ سبز موسم کے ایک بیٹے کی ضد عجب تھی
کھلونا ایسا جو گھر کے بوڑھوں کے کام آئے
نئی نظر کے غریب بچے کی ضد عجب تھی
یوں کوئی شاید مزاج ہی پوچھ لے ہمارا
مسرتوں میں اداس رہنے کی ضد عجب تھی
میں جس کی خاطر نماز پڑھتا رہا ہمیشہ
اُسے دعاؤں میں بھول جانے کی ضد عجب تھی
بس ایک لمحے کی مَوت اچھی بھلی تھی آزرؔ
مگر تجھے قسط قسط مرنے کی ضد عجب تھی
***************