* دکھوں کے رہنے سے یاد_ خدا بھی رہتی ہ *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
دکھوں کے رہنے سے یاد_ خدا بھی رہتی ہے
جبیں زمیں پہ لبوں پر دعا بھی رہتی ہے
وہ بات کرتا ہے تو بات ہی نہیں کرتا
ہر ایک بات میں شامل ادا بھی رہتی ہے
ستاتے رہتے ہیں زلفوں کے پیچ و خم اسکو
ہے جن پہ ناز، انہیں سے خفا بھی رہتی ہے
وہ چاہتے تو ہیں جی بھر کے دیکھنا مجھ کو
مگر نگاہوں پہ غالب حیا بھی رہتی ہے
علاج کرتے ہیں ہر ممکنہ طریقے سے
ہمارے پاس دعا بھی، دوا بھی رہتی ہے
چمن ہوں، تند ہوائیں مجھے ستاتی ہیں
مگر تلاش میں میری صبا بھی رہتی ہے
ہمیشہ پانو رہے فرش پر مرے جاوید
ہےشوق_ زیست تو فکر_ قضا بھی رہتی ہے
*** |