* چشم_ زدن میں دل کی تہوں میں اتر گیا *
غزل
ا ز ڈاکٹر جاوید جمیل
چشم_ زدن میں دل کی تہوں میں اتر گیا
مانند_ برق پھر رگ و پے میں بکھر گیا
آیا براہ_ راست ہوس کی کمان سے
سوداگری کے تیر سے کردار مر گیا
یاد اتنا ہے کہ آیا تھا اک لمحہء خوشی
جانے کدھر سے آیا تھا، جانے کدھر گئے
وہ تھک گیا سوالوں سے موسیٰ کے صرف تین
"بس اور اب نہیں" یہ کہا اور خضر گیا
بکھرے ہوئے ہوئی ہیں ابھی چند ساعتیں
جاوید! لگتا ہے کہ زمانہ گزر گیا
************************ |