* شبنمی رات کی زلفوں کو سنوارا جائے *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
شبنمی رات کی زلفوں کو سنوارا جائے
ان میں الفت کے گلابوں کو سجایا جائے
ہم نہیں چاہتے، جذبات شریک_ غم ہوں
کیسے اس اشکوں کے طوفان کو روکا جائے ؟
وہ کسی اور کا ہو جائے گا اس خوف سے دل
بیٹھا جاتا ہے، اسے کیسے سنبھالا جائے
دل کو الفت ہی نہیں تجھ سے، عقیدت بھی ہے
کہتا ہے آج ترے ہاتھوں کو چوما جائے
ہے رقیبوں کا یہ کہنا کہ میں چھوڑوں امید
حکم گویا ہو خدا کا جسے مانا جائے
حق میں آئے گا، اسی آس میں جیتے جائیں
ٹھیک شاید ہے یہی، فیصلہ ٹلتا جائے
دھوکے کھاتے ہیں لگاتار زمانے والے
آؤ دنیا سے سرابوں کو مٹایا جائے
دن تو گرداب_ مسائل میں پھنسا تھا جاوید
شام کو پیار کے دریا میں ڈبویا جائے
******************** |