* مقصود تو کچھ اور ہیں، حالات ہیں کچ *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
مقصود تو کچھ اور ہیں، حالات ہیں کچھ اور
دعوے ہوئے کچھ اور، علامات ہیں کچھ اور
رب سے دل_ناداں کے سوالات ہیں کچھ اور
اور حکمت_یزداں ہے، عنایات ہیں کچھ اور
باقی نہیں رہتی کوئی جب دل میں تمنا
وہ راہ_محبّت کے مقامات ہیں کچھ اور
ہم ہو گئے خود ساختہ راہوں کے مسافر
مخلوق کو خالق کی ہدایات ہیں کچھ اور
مذہب یہ سکھاتا ہے کہ ہو حق کی حکومت
تاریخ بتاتی ہے روایات ہیں کچھ اور
ہو جائے عطا کاش زمانہ کو بصیرت
مطلوب ہیں کچھ اور، رسومات ہیں کچھ اور
کانوں کو ذرا دیربھلے لگتے ہیں یہ گیت
جو دل میں اترتے ہیں وہ نغمات ہیں کچھ اور
ہر سمت اطاعت ہے فقط نفس کی جاوید
انسان کو فطرت کے اشارات ہیں کچھ اور
********************** |